ارنا کے مطابق وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بدھ 16 اپریل کو حکومتی کابینہ کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے امریکیوں کی جانب سے مختلف موقف سنے ہیں جن میں بعض متضاد ہیں اور اس سے مذاکرات کے عمل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ بہرحال ہمیں مذاکرات میں امریکی فریق کے حقیقی نظریات سے مطلع ہونا چاہئے۔ اگر وہ تعمیری موقف کے ساتھ آتے ہیں تو مجھے امید ہے کہ ہم ایک ممکنہ سمجھوتے کے لئے مذاکرات شروع کرسکیں گے اور اگر ان کے موقف اسی طرح متضاد ہوئے تو مشکل ہوگی۔
سید عباس عراقچی نے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے دورہ روس کا مقصد کیا ہے، کہا کہ میرے اس دورے کا مقصد، روس کی قیادت کو رہبر انقلاب اسلامی کا تحریری پیغام پہنچانا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ روس کے صدر جناب ولادیمیر پوتن سے ملاقات میں یہ پیغام ان کے حوالے کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے مذآکرات کے دوران ایران پر دباؤ جاری رہنے کے بارے میں کہا کہ ہمارا موقف اور طرزعمل دونوں واضح ہے۔ انہیں دباؤ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اگر مذاکرات برابری کے اصول پر اور محترمانہ ماحول میں ہوں تو پیشرفت ہوسکتی ہے لیکن دباؤ اور اپنا موقف مسلط کرکے، وہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس بات کو ہم اپنے موقف اور عمل دونوں سے ثابت کرچکے ہیں۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ہم کسی بھی دباؤ یا فضا سازی سے متاثر ہوئے بغیر پورے سکون کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں۔
انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران اور امریکا کے بالواسطہ مذاکرات کے پہلے دور میں، ایران کے اندر یورینیئم کی افزودگی کے بارے میں بھی کوئی بات ہوئی ہے؟ کہا کہ یہ بات مسلم ہے کہ ایران کی افزودگی ایک حقیقت ہے، تسلیم شدہ ہے، ہم ممکنہ تشویش کے حوالے سے اعتماد سازی کے لئے تیار ہیں لیکن خود افزودگی کا موضوع قابل مذاکرہ نہیں ہے۔
آپ کا تبصرہ